top of page

۱۷. شیخ الآفاق عمدۃ الاصفیاء حضرت علامہ شاہ آفاق احمد احمدی چشتی صابری قدس سرہٗ سجادہ نشین ہفت دہم حضور شیخ العالم قدس سرہٗ۔ (شہر حق، معارف ستمبر۱۹۸۰ء ؁، شخصیت و سیرت)

۱۸. شیخ طریقت نیر ملت زینت مشیخیت حضرت الحاج شاہ عمار احمد احمدی عرف نیر میاں چشتی صابری اطال اﷲ عمرہٗ موجودہ سجادہ نشین حضور شیخ العالم قدس سرہٗ۔ (شہر حق)

تعلیم و تربیت

آپ کی مکمل تعلیم و دینی تربیت الٰہ آباد میں اپنے حقیقی نانا حضرت مولانا شاہ احمد الفاروقی رحمۃ اﷲ علیہ کے یہاں رہ کر ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی کنیزہ زہرا جو کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عابدہ زاہدہ خاتون تھیں اپنی آغوش ہی سے آپ کی علمی تربیت شروع فرمادی تھی پھر جب کچھ بڑے ہوئے تو نانا جان نے آپ کو اپنے شاگرد و مرید خاص حافظ غلام احمد صابری کے سپرد فرمایا جہاں آپ نے تھوڑے ہی دنوں میں قرآن مجید ناظرہ اور دیگر بنیادی دینیات کی تکمیل فرمائی۔

عصری تقاضوں کے پیش نظر نانا جان نے آپ کو اسکول بھیجنا شروع کیا اور ساتھ ہی ساتھ دینی تربیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا چنانچہ جہاں آپ ایک طرف عصری علوم میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے چلے گئے وہیں دوسری طرف نانا کے زیر سایہ عربی، فارسی، مسائل دینیہ اور فقہ و تصوف پر بھی خاطر خواہ گرفت بنا لی۔

آپ کی ذہانت و فطانت کو دیکھ کر آپ کے اساتذہ و خاندان کے دوسرے افراد نے آپ کی عصری تعلیم جاری رکھنے پر مصر رہے چنانچہ ۱۶؍سال کی عمر میں ہائی اسکول اور ۲۱؍سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ نے گریجویشن مکمل کر لیا پھر الٰہ آباد یونیورسٹی سے ممتاز پوزیشن کے ساتھ ایم کام کا کورس پورا کیا۔

یہاں یہ واقعہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس کا چشم دید راوی میں خود ہوں وہ یہ کہ ۲۰۱۱ء کے کسی مہینے میں میں آپ کے ساتھ رائے گڑھ صوبہ چھتیس گڑھ کے سفر کے ارادے سے نکلا۔ شام ۶؍بجے الٰہ آباد اسٹیشن سے ٹرین پکڑنی تھی اس لئے ردولی سے بذریعہ کار الٰہ آباد کے لئے نکلے اور دن کے تقریباً ۳؍بجے الٰہ آباد پہنچ گئے۔ شہر میں داخل ہوتے ہی آپ اس سے اپنی پرانی وابستگی کا اظہار فرمانے لگے یہاں تک کہ آپ نے مجھے پوری الٰہ آباد یونیورسٹی دکھائی اور وہ مقامات بھی دکھا دیئے جہاں دوران طالب علمی آپ رہا کرتے تھے پھر آپ نے اپنے بہت سے ہم درس ساتھی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ فلاں ساتھی آج فلاں عہدہ پر فائز ہے فلاں ساتھی فلاں ملک میں حکومت ہند کی جانب سے مامور ہے۔ میں نے عرض کیا کہ لیکن آپ جس عہدے پر فائز ہیں یہ لوگ اس کے گرد راہ تک بھی رسائی حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ حضور شیخ العالم کی سجادہ نشینی دنیا و آخرت کے اعلیٰ ترین عہدوں میں سے ایک اعلیٰ عہدہ ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ بے شک مفتی صاحب! یہ مجھ پر میرے رب کا سب سے بڑا فضل ہے، میرے رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی عنایتیں ہیں اور میرے بزرگوں کا خاص فیضان ہے یہ فرماتے رہے یہاں تک کہ جذباتی ہو گئے۔ میں نے حضرت کے بہت سے اہم واقعات دیکھے ہیں مگر فی الحال ذکر کرنا مناسب نہ ہوگا۔

آپ نے باضابطہ کسی دینی درسگاہ میں رہ کر رسم تعلیمی تو نہیں نبھائی مگر آپ کے دادا شاہ آفاق احمد احمدی جو جنید عصر تھے اور آپ کے نانا شاہ احمد میاں فاروقی جو شبلی دھر تھے ان کی نگاہ کیمیا اثر نے آپ کے اندر دین و سنیت اور علم و عمل کا ایسا عرفان پیدا کردیا جو درسگاہوں کی برسوں خاک چھاننے کے باوجود میسر نہیں ہوتا۔

بحمدہٖ تعالیٰ آپ کی شخصیت شریعت مطہرہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے اور کوئی قدم شریعت مطہرہ سے باہر نہیں۔ نماز باجماعت کے سخت پابند تو ہیں ہی دیگر نوافل مثلاً چاشت، اشراق، اوابین وغیرہ سمیت تلاوت قرآن و اوراد و وظائف سلسلہ کے بھی بیحد دلدادہ ہیں اس حقیر نے ایک سال کے اندر دسیوں بار آپ کی معیت میں دور و دراز علاقے کا سفر کیا مگر بخدا آپ کی کوئی نماز کبھی قضا ہوتے نہیں دیکھا حتی کہ دوران سفر بھی۔ بلکہ انصاف کی بات یہ ہے کہ تقویٰ و طہارت، عبادت و بندگی خوف خدا و عشق رسول، حب اولیاء و خدمت دین آپ کی شخصیت کے امتیازی اوصاف ہیں۔

حادثہ جانکاہ: حادثات ہر فرد کی زندگی میں رونما ہو سکتے ہیں مگر آپ کے لئے سب سے بڑا حادثہ والد گرامی کی اچانک وفات ہے کہ ابھی آپ کی عمر تقریباً ۱۸؍سال تھی اور الٰہ آباد میں زیر تعلیم تھے اس درمیان ۱۹۷۹ء آپ کے دادا کی حیات ہی میں والد گرامی شاہ تمیم احمد احمدی جو اوصاف و فضائل میں اپنے بزرگوں کی سچی تصویر تھے اچانک وصال فرما گئے۔ پھر ان کے بعد دادا، نانا اور والدہ بھی داغ مفارقت دے گئے۔

نیر ملت حضرت شاہ عمار احمداحمدی قبلہ کی جشن سجادگی اور رسم دستار بندی ۱۴۰۰ھ /۱۹۸۰ء

حضرت شاہ آفاق احمد احمدی قدس سرہٗ کے تمام کارنامے اہم ہیں لیکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ،سب سے بڑی کرامت اور سب سے بڑی یادگار آپ کے قابل صدافتخار پوتے نیر ملت حضرت شاہ عمار احمداحمدی عرف نیر میاں صاحب قبلہ کی ذات ہے جسے آپ نے اپنی حیات ہی میں حضرت شیخ العالم کے غیبی اشارے پر سجادہ نشین منتخب فرما دیا تھا اور ۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۰۰ھ /۱۹۸۰ء میں عرس کے دوران اپنے اجداد کرام کے تمام تبرکات ان کو سپرد فرمادئے اور رسم دستار بندی اپنے دست مبارک سے ادا فرمائی نیز سلسلہ چشتیہ صابریہ احمدیہ و جملہ سلاسل کی اجازت وخلافت سے بھی سرفراز فرمایا۔

 

pre%20next%20button_edited.png
pre%20next%20button_edited.png
girl.jpg
3.jpg
p2.png

SABRI

LECTURE SERIES

JAMIA CHISHTIYA

IN THE LIGHT OF PAST AND PRESENT

CHISHTIYA

GIRLS INTER COLLEGE

bottom of page