top of page

شاہ مبین احمد فاروقی تحریر کرتے ہیں

آپ کے فرزند اکبر جناب شاہ تمیم احمد کا وصال عیدالاضحی ۱۳۹۹ھ/۱۹۷۹ء کی شام کو راہ چلتے ہو گیا اور وہ احاطہ درگاہ شریف میں مدفون ہوئے۔ آپ نے ان کے بڑے صاحبزادے جناب شاہ نیر میاں صاحب قبلہ کو ۳۰:۹ بجے شب میں صحن خانقاہ شریف میں بتاریخ ۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۰۰ھ /۱۹۸۰ء عرس شیخ العالم رحمتہ اللہ علیہ میں محفل سماع سے قبل اہل سلسلہ ، اہل خاندان اور ہزاروں معتقدین کی موجودگی میں حضرت شیخ العالم احمد عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ کا ہونے والا سجادہ اور اپنے چھوٹے صاحبزادے جناب حسین احمد احمدی کو ان کا نگراں مقرر فرمایا۔ ان کے نام کا اعلان کیا بعدہٗ اپنے دست مبارک سے دستار بندی کر کے رسم نذر گذاری کرادی اور ۱۵؍جمادی الثانی کو نیر میاں صاحب قبلہ کو خرقہ بھی پہنا دیا اور دوسرے تبرکات منتقل کئے۔ (شہر حق ص۱۵۸)

جب شاہ آفاق احمد احمدی نے حضرت نیر میاں کی شکل میں ایک نو عمر لڑکے کو بحیثیت سجادہ نشین حضور شیخ العالم متعارف کرایا تو لوگ ورطۂ حیرت میں پڑ گئے تھے مگر ایک مختصر عرصہ بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ لوگوں کی حیرت میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا فرق صرف نوعیت میں تھا کہ پہلے لوگ آپ کی نوعمری پر حیرت زدہ تھے اور اب کارناموں سے حیرت زدہ ہیں۔ عالم یہ ہے کہ حضرت شاہ آفاق احمد احمدی قدس سرہٗ کو دیکھنے والے لوگ آج جب خانقاہ کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ ان پر سلام بھیجنے لگتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں کہ شاہ نیر میاں حضرت شاہ آفاق میاں کی ایک زندہ و جاوید کرامت ہیں۔

حضرت نیر ملت بحیثیت سجادہ نشین حضور شیخ العالم قدس سرہٗ

سابقہ سطور میں گزر چکا کہ آپ کے والد (وصال ۱۹۷۹ء) کے بعد آپ کے دادا حضرت مخدوم شاہ آفاق احمد احمدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۰۰ھ/ ۱۹۸۰ء میں عرس شیخ العالم کے مبارک موقع پر ہزاروں علماء و مشائخ کی موجودگی میں آپ کو حضور شیخ العالم کا سجادہ نشین مقرر کیا اور اپنے دست مبارک سے دستار باندھی پھر ۱۵؍جمادی الثانی میں آپ کو خرقہ حضرت شیخ العالم پہنایا اور تمام تبرکات منتقل کئے نیز جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت سے بھی نوازا۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً ۱۹؍سال تھی۔

پھر ۴؍ستمبر ۱۹۸۴ء بروز جمعرات حضرت شاہ آفاق احمد احمدی علیہ الرحمہ کے عرس چہلم کے موقع پر ہندوستان کے گوشے گوشے سے تشریف لانے والے ہزاروں عقیدتمند اور درگاہوں کے سجادہ نشین حضرات نے دوران محفل آپ کو حضور شیخ العالم کے سجادہ نشین کی حیثیت سے اپنا مخدوم تسلیم کیا اور دستار پیش کی۔

شاہ مبین احمد فاروقی کے مطابق آپ کو مندرجہ ذیل درگاہوں کی جانب سے دستار اور نذر پیش کی گئی:

۱۔ درگاہ خواجہ غریب نواز اجمیر شریف۔
۲۔ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی۔
۳۔ درگاہ حضرت صابر کلیری کلیر شریف۔
۴۔ درگاہ حضرت عبد القدوس گنگوہی گنگوہ شریف۔
۵۔ خانقاہ صابریہ دہلی۔
۶۔ درگاہ صابریہ مین پوری۔
۷۔ درگاہ حضرت قطب علی شاہ صاحب بنارس۔
علاوہ ازیں اور بھی بیسوں خانقاہ کی جانب سے مختلف انداز میں آپ کے حضور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ جس کا سلسلہ بعد تک جاری رہا اور اب تک جاری ہے۔

آپ اپنے نانا حضرت مولانا شاہ احمد میاں فاروقی رحمۃ اﷲ علیہ متوفی ۱۹۸۴ء کے بھی جمیع سلاسل میں خلیفۂ مجاز ہیں جب کہ دعائے حزب البحر اور دلائل الخیرات کی اجازت اپنے نانا کے مرید و خلیفہ حکیم محی الدین عثمانی صاحب سے حاصل ہے۔ اس اعتبار سے گویا آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ احمدیہ اور سلسلہ چشتیہ صابریہ قدوسیہ و جمیع سلاسل کے حسین سنگم ہیں۔

سجادہ نشین بننے کے دس سال بعد تک الٰہ آباد ہی میں حصول تعلیم میں مشغول رہے اس درمیان عیدین و عرس اور خاص مواقع پر ردولی تشریف لاتے تھے مگر ۱۹۹۱ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد باضابطہ ردولی شریف ہی میں رہنے لگے اور فرائض منصبی کی انجام دہی میں مصروف ہو گئے۔

سیر و سفر

۲۰۰۶ء میں آپ نے بغرض حج حرمین شریفین کا سفر کیا اور حج و عمرہ اور زیارت بارگاہ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دولت لازوال سے شاد کام ہوئے پھر اس دیار کے جملہ مقامات متبرکہ کی زیارت سے شرف یاب ہوئے اور دیرینہ آرزوؤں کی تکمیل فرمائی۔

ع خدا تیری حیات کا سلسلہ دراز کرے

 

pre%20next%20button_edited.png
pre%20next%20button_edited.png
girl.jpg
3.jpg
p2.png

SABRI

LECTURE SERIES

JAMIA CHISHTIYA

IN THE LIGHT OF PAST AND PRESENT

CHISHTIYA

GIRLS INTER COLLEGE

bottom of page